Wednesday 13 September 2017

خطرناک ویڈیو گیم بلیو وہیل کی حقیقت کیا ہے؟

 خطرناک ویڈیو گیم بلیو وہیل کی حقیقت کیا ہے؟

خطرناک ویڈیو گیم بلیو وہیل کی حقیقت کیا ہے؟

پچھلے چند ہفتوں سے سوشل میڈیا پر پاکستان میں ایک خطرناک ویڈیو گیم ’بلیو وہیل‘ کے بارے چند حیران کن خبریں شیئر ہو رہی ہیں، جن میں سے کچھ خبریں ایسی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ’بلیو وہیل‘ دنیا بھر میں اموات کا نہیں سبب بنا، اور اس کا حقیقت سے کوئی ہی تعلق نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کے بارے میں خبریں بڑھا چڑھا کر لوگوں میں منتقل کی جا رہی ہیں۔


حیران کن امر یہ ہے کہ اس گیم کے بارے میں پاکستانی لوگ بجائے پریشان ہونے کے مزاحیہ انداز میں اس کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس قسم کی پوسٹیں شیئر کر رہے ہیں کہ وہ بھی یہ گیم کھیل کر یہ آزمانا چاہتے ہیں کہ آخر ’ایک گیم کس طرح سے کسی انسان کو خودکشی پر مجبور کرسکتا ہے‘۔

بلیو وہیل‘ گیم جسے ’ڈیتھ گروپ‘ اور ’بلیو وہیل چیلنج‘ بھی کہا جاتا ہے، اس کے بارے میں سب سے پہلے روسی نشریاتی ادارے ’نووایا گزیتا‘ نے ایک کالم شائع کیا تھا، جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ایک ویڈیو گیم کی بدولت روس بھر میں لگ بھگ 130 کم عمر بچوں کی اموات رپورٹ سامنے آئی ہیں۔

اس گیم کے بارے میں روس کے اسی ادارے نے مئی 2016 میں پہلی بار مکمل اعداد و شمار کے ساتھ فیچر شائع کیا۔

اُس کے چند روز بعد ہی روس کے مشہور و معروف نشریاتی ادارے ’آر ٹی‘ ٹی وی چینل نے مئی 2016 میں اس گیم کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ نشر کی۔

آر ٹی کی خبر میں ’بلیو وہیل چیلنج‘ گیم کے بارے میں بتایا گی تھا کہ اس گیم کا حصّہ بننے والے افراد کو مختلف ٹاسک دیے جاتے ہیں،جن میں خوفناک کارنامے سر انجام دینا اور خوفناک ویڈیوز دیکھنا بھی شامل ہیں۔
اس خبر میں اس گیم کو کھیلنے سے ہونے والی خودکشیوں کے بارے میں بھی بتایا گیا۔


روسی نشریاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس گیم کی سب سے پہلے شروعات روس کی سوشل ویب سائٹ ‘وی کے‘ پر ہوئی، جو فیس بک کے جیسے کام کرتی ہے۔

بلیو وہیل چیلنج‘ کو شروعات میں 2013 میں بنایا گیا، لیکن پہلے ورژن میں یہ گیم اتنا خطرناک نہیں تھا، اُس وقت اس گیم کو کم عمر بچوں تک پہنچایا گیا، اور اس میں تفریحی ویڈیوز پیش کئے گئے۔

لیکن آگے چل کر 2015 میں اس گیم کا مزید ایک اور ورژن میش کیا گیا، جو پہلے ورژن کے مقابلے بہت زیادہ خطرناک تھا۔

بلیو وہیل چیلنج‘ گیم کے نئے ورژن کو انتہائی راز میں رکھا گیا، جسے نہ صرف ’وی کے‘ جیسی سماجی ویب سائٹس بلکہ دیگر عالمی سماجی اور پیغام رساں ایپلی کیشنز جن میں فیس بک، واٹس ایپ اور میسیجر شامل ہیں جن کے ذریعے اُن کم عمر افراد میں پھیلایا گیا، جو زہنی پریشانی اور ںاخوش زندگی گزار رہے تھے۔

اور ان افراد کو پہلے ورژن کے گروپ میں شامل افراد میں سے ہی منتخب کیا گیا۔

یوں پہلے پورے ایک سال تک اس ویڈیو گیم کی کسی بھی قسم کی کوئی خبر سامنے نہیں آسکی، اور اچانک خبر آنے کے بعد اس گیم کی وجہ سے روس میں 130 اموات کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

اس دعوے کے بعد سے ہی 2016 میں ’آر ٹی‘ جیسے بڑے اداروں نے اس ویڈیو کی خبریں لوگوں تک پہنچائیں، لیکن اُس وقت تک بھی اس ویڈیو گیم کا خوف صرف روس تک ہی محدود تھا۔

لیکن فروری 2017 میں پہلی بار ’بلکان انسائٹ‘ نے خبر دی کہ بلغاریہ کے حکومت نے عوام اور والدین کو خطرناک روسی ویڈیو گیم کے بارے میں خبردار کیا تھا، تاہم اُس وقت تک بلغاریہ میں اِس گیم کے سبب کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں کی گئی تھی۔

اس کے دو مہینے بعد پہلی بار برطانیہ کے نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے اپریل 2017 میں اِس گیم کے بارے میں خبر شائع کی، جس میں بتایا گیا کہ پولیس نے وَالدین کو اپنے بچوں پر کَڑی نظر رکھنے کی ہدایت جاری کی۔
مئی 2017 میں آر ٹی نے ایک دفعہ پھر ’بلیو وہیل چیلنج‘ گیم کی متاثرہ ایک کم عمر لڑکی کے بارے میں خبر شائع کی اور اُس کی جانب سے خودکشی کرنے کی کوشش کی ویڈیو بھی دکھئی گئی۔

جیسے جیسے دن گزرتے گئے اس ویڈیو گیم کا خوف بڑھتا گیا، جب کہ یہ گیم روس سے نکل کر اسپین، بلغاریہ اور برطانیہ جیسے ممالک تک پہنچا۔

خوفناک ویڈیو گیم کے پھیل جانے کے بعد ’نووایا گزیتا‘ نے دِسمبر 2016 میں اِنویسٹیگیٹو کمیٹی آف دی رشین فیڈریشن (آئی سی آر ایف) کے عُہدیداروں کا انٹرویو شائع کیا۔

اس انٹرویو میں گیم کے مبینہ سربراہ یعنی (کرتا درتا) کو گِرفتار کرنے کے بعد اس کی تحقیقات کے حَوالے سے کی جَانے والی بات چیت کے اِقتباسات پیش کیے گئے۔

طویل ترین انٹرویو میں تحقیق کاروں نے انکشاف کیا کہ گرفتار کیے گئے شخص فلپ بڈیکن نے ’بلیو وہیل‘ گیم کو بنانے اور چلانے کے تمام تر ثبوت کو ضائع کردیے ہیں، اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس کے بارے میں کوئی ثبوت یا مواد موجود نہیں۔

یہ شبہ بھی ظَاہر کیا گَیا ہے کہ مُمکنہ طور پر فلپ بڈیکن اس گیم کے سربراہ نہیں بلکہ گیم کو بنانے والی ٹیم کے رکن ہوسکتے ہیں۔

تاہم مئی 2017 میں بی بی سی نے خبر دی کہ فلپ بڈیکن کو خطرناک ویڈیو گیم ’بلیو وہیل‘ بنانے کی وجہ سے ان پر فرد جرم عائد کیا گیا ہے۔

بلیو وہیل چیلنج‘ گیم برصغیر میں  
پاکستان میں اس گیم کے بارے میں تشویش کی لہر اُس وقت دوڑ گئی جَب پڑوسی ملک بھارت میں گزشتہ ماہ اگست میں ’بلیو وہیل‘ کی سبب پہلی بار 14 سالہ لڑکے کی خودکشی کرنے کی خَبر سامنے آئی۔

ٹائمز آف انڈیا نے یکم اگست کو ممبئی پولیس کے حوالے سے خبر دی کہ ممبئی کے 14 سالہ لڑکے منپریت سنگھ نے ’بلیو وہیل‘ گیم کے آخری ٹاسک کو پورا کرنے کے خاطر خودکشی کی تھی۔
ہندوستان ٹائمز نے 3 ستمبر کو بھارتی ریاست گجرات میں مزید ایک اور نوجوان کی جانب سے’بلیو وہیل‘ گیم کا آخری ٹاسک پورا کرتے ہوئے خودکشی کی خبر دی تھی۔


دی ہندو نے 11 ستمبر کو خبر دی کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ ’بلیو وہیل‘ گیم کے حوالے سے درخواستوں پر سماعت کرکے حکومت پر زور دیا جائے کہ اس گیم کی روکتھام کے حوالے سے اقدامات کئے جائیں۔

اگرچہ اِس وَقت تک دنیا بھر میں اس گیم کی وجہ سے مُصّدقہ خودکشیوں اور ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہوسکی، تاہم رپورٹس کے مطابق تقریبا 150 کے لگ بھگ افراد اس گیم کی وجہ سے موت کو گَلے لگا چُکے ہیں، جن میں سے 130 سے زائد اموَات صرف روس میں ہوئی ہیں۔

پاکستان میں اس گیم کے بارے میں مختلف چہ مگوئیاں جاری ہیں، تاہم اب تک ملکِ پاکستان میں اس گیم کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

ڈان نیوز کے پُروگرام ’نیوز وائز‘ میں یکم ستمبر 2017 کو اِنفارمیشن ٹیکنالوجی ’آئی ٹی‘ کے ماہر سیّد حیدر علی نے بتایا کہ پاکستان میں ’بلیو وہیل‘ گیم اب تک نہیں آسکا، کیوں کہ یہاں کی ویب سائٹس اور انٹرنیٹ سیکیورٹی ادارے اس گیم کی انٹری کو روکنے میں مصروف عَمل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تاہم ’بلیو وہیل‘ گیم کی پَاکستان میں انٹری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، کسی بھی کم عمر انٹرنیٹ صارف کو کسی کی جانب سے سوشل یا میسیجنگ ایپ کے ذریعے گیم کھیلنے کی دعوت مل سکتی ہے۔

ممکنہ طور پر اِس گیم کو کھیلنے وَالے شَخص کو سوشل اکاؤنٹ کی طرح اکاؤنٹ بنانا پڑتا ہے، جس میں وہ اپنی تمام تر معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔

گیم کھیلنے والے شخص کو تمام ٹاسکس پورے کرنے کے حوالے سے تمام ثبوت تصاویر یا ویڈیوز کی شکل میں واپس گیم کے ایڈمن کو بھیجنے پڑتے ہیں۔

ممکنہ طور پَر یہ گیم میں تصورات کی بنیاد پر کھیلا جاتا ہے، جس کے سحر یا جادو میں گیم کھیلنے والا مبتلا ہوکر خودکشی جیسا قدم بھی اٹھانے پر مَجبور ہوجاتا ہے۔


یہ خبر ڈان نیوز ۱۱ ستمبر ۲۰۱۷ کو شائع ہوئی۔

No comments:

Post a Comment

Popular Posts