Wednesday 15 February 2017

ایمان و یقین کی کمزوری اور سبز باغ

   تحقیق و تحریر :  رمشا شیراز ۱۱ فروری ۲۰۱۷      

! محترم قارئین
انسان کے پاس سب سے قیمتی متاع اس کی جان ہے جس کی وہ ہر طرح سے حفاظت کر نے کی کوشش کر تا ہے جبکہ ایک مسلمان کے پاس اس کی سب سے قیمتی متاع اس کا ایمان ہے جبکہ مسلمان کے لئے اپنی جان کا درجہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے
۔
‘ایمان’ عقائد و نظریات کا ایک ایسا مجمو عہ ہے جو مسلمان کی فکرو نظر کا احاطہ کر تے ہو ئے اس کی زندگی کے ہر پہلو اور ہرعمل کو ایک مخصوص انداز عطا کر تا ہے ایمان ایک اسی دو لت ہے جس کے لوٹنے والا چور (شیطان) بڑا جری ہے اسی طرح اس قیمتی اور نا یاب متاع کی حفاظت کر نا بھی اتنا ہی مشکل ٹھیرا ہے ۔

ہما را معاشری اپنی اساس میں ایک اسلامی معاشرہ ہے لیکن اپنی اصل میں وہ صرف ایک مسلم معاشرہ ہے جو کہ اسلام کے زریں اصولوں و قوانین سے کو سوںوور نکلتا ہوا نظر آتا ہے بالکل اسی طرح جیسے انفرادی لحاظ سے ہم میں اسلام کے نام لیوا مسلمان تو  ہمیں کھلے ملیں گےجبکہ اسلام پر عمل پیرا مسلمان ڈھونڈنے سے بھی خال خال ہی نظر آسکیں گے کیونکہ ہما را معاشرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اخلاقی اغطاط کی طرف بڑھ رہا ہے جس کی اصل وجہ عقا ئد کی ناپختگی اور ایمان کی کمزوری ہے ۔

اللہ رب العزت نے  ہر چیز کو ایک خاص فطرت عطا کر رکھی ہے اسی وجہ سے ہر انسان ، نظریہ ، قوم اور مذہب ایک
 خاص فطرت رکھتا ہے اسی طرح اسلام کی فطرت میں غالب ہو کر رہنا عیاں ہے اور جب کو ئی فریاد یا قوم اسلام کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لیتی ہے تو اس کی کا میابی و نا کا می کا انحصار اسلام پر عمل  کر نے یا اس سے رو گردانی کر نے پر ہے ایسا ممکن نہیں کہ کو ئی اسلا م کا نام لیوا فرد یا معاشرہ اسلام سے رو گردانی کا بھی مر تکب ہو لیکن پھر بھی ذہنی اور روحانی تسکین کا حامل ہو کیونکہ اسلام اپنی سرشت میں بالکل ہی جدا حیثیت رکھتا ہے۔

اسلام وہ دروازہ ہے کہ جس سے گزرنے کے بعد ایمان کی راہ پہ چلتے ہو ئے جنت کی منزل میسر آتی ہے لیکن اگر اسلام کے دروازہ کو پار کر نے کے بعد ایمان کی راہ سے کو ئی بھٹک جائے تو منزل کا حصول بہت ہی کھٹن ہو جا تا ہے ۔
اس ایمان کی راہ کی زادِراہ جز ئیات پر مشتمل ہے جو کہ ہما رے انفرادی اور اجتما عی غرض یہ کہ ہر طرح کے معاملات کا احاطہ کیے ہو ئے ہے لیکن ہم صرف اپنے احاطہ تحریر میں دو جز  ہی لے کر آئیں گےیعنی

۱۔ ایمان باللہ
۲۔ ایمان بالآخرہ
اگر ہم ایمان با للہ کو دیکھیں تو اس میں تو حید زبانی کا اقرار اور ہر طرح کے شرک کا انکار لازم آتا ہے یعنی ایمان کا یہ جز انسان کو تمام دنیا اور اس میں مو جود تمام تر لا یعنی خداؤں سے کاٹ کر اسے اپنے خالق و مالک کی طرف لے کر آتا ہے اور یہ عقیدہ تو حید کا ثمر ہے کہ انسان کے دل و دماغ پر ہر وقت اللہ رب العزت کی کبریائی اور عظمت طا ری رہتی ہے جو کہ اس کے نفس کو قابومیں رکھتا ہے اور سر کشی سے باز رکھتا ہے ۔ لیکن جب عقیدہ تو حید میں بگاڑ پیدا ہو تا ہے اور اس کی جگہ نا پاک شرکیہ عقائدے لیتے ہیں تو انسان کے دل سے براہ راست اپنے خالق و مالک اور خدائے بزرگوارکاڈر نکل جا تا ہے اور پھر اس کے اور اللہ رب العزت کے درمیان کسی کا واسطہ آجا تا ہے جس کی وجہ سے وہ خود کو  برا ہ راست اللہ رب  العزت کی گرفت سے با ہر سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور یہی وہ عقیدے کا بگاڑ ہے جو معاشرے میں گناہ اور راہروی کو فروغ دیتا ہے ۔ ایمان با لآخر ہ میں انسان کا اس عالم فانی کو چھوڑ کر موت کے دروازے سے گزرتے ہو ئے عالم باقی میں جا نا آتا ہے یعنی انسان کو یہ بات ذہن نشین کروانا ہے کہ اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ مچھ محدود مدت کے لئے ایک خاص مقصد دے کر بھیجا گیا ہے اور جب یہ وقت ختم ہو جائیگا تو اسے اس کا حساب دینے کے لئے اس دنیا میں واپس بلا یا جائیگا یعنی اگر عقیدہ آخرت پر انسان کا یقین ہے تو اس کی زندگی کے معاملات آزادانہ نہیں ہوں گے بلکہ ایک خاص لائحہ عمل کے تحت اپنی زندگی بسر کریگا۔

اگر ہم ایمان با للہ اور ایمان با لآخرہ یعنی کہ عقیدہ تو حید اور عقیدہ آخرت کے انسانی زندگی پر مر تب کردہ اثرات کا مشاہدہ کریں تو یہ بات ضرور سامنے آئے گی کہ یہ انسان کو راہ راست پر رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اگر انسان کا ایمان کمزور پڑ جائے تو معاشرہ میں کئی ایک برائیاں اپنا سر اٹھا نے لگتی ہیں یعنی اسلام قبول کر نے کے بعد ایمان ہی اصل معاملہ ہے جو اس زندگی گزارنے کا اصل طریقہ اور منشائے الٰہی سکھا تا ہے یعنی کلمہ طیبہ پڑھنے سے انسان مسلمان تو ہو جا تا ہے لیکن مؤمن نہیں جیساکہ ارشادِ ربانی ہے کہ
بدویوں نے کہا ہم ایمان لےآئے ، کہہ دے تم ایمان نہیں لا ئے اور لیکن یہ کہو کہ ہم مطیع ہو گئے اور ابھی تک ایمان تمھا رے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔  اگر انسان کا اس چیز پر کامل ایمان ہو کہ اللہ رب العزت سب سے بز رگ و بر تر ہیں اُ ن کے لئے یہی ساری عاجزی و انکساری ہے وہ ایک ایسی ذات ہے کہ جس کا ہر حکم ماننا ہم پر عین فرض ہے ۔ اور یہ کہ اللہ رب العزت کی نافرمانی کی وجہ سے دنیا و آخرت کی نا کامی لازمی مقدر بنے گی اور اگر ہما را اس چیز پر بالکل پختہ یقین ہو کہ اس دنیا میں نیک اعمال کر نے کی وجہ سے ہمیں عنقریب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں داخلا عطا  کیا جائیگا جبکہ بُرے اعمال کی صورت میں جہنم جیسا بُرا ٹھکانہ ہما را مقدر ہو گا تو ہم ضرور با لضرور خود کو نیکی اور عزت کی را ہ پر لے آئیں گےلیکن اصل بات تو یہ ہے کہ قولی اقرار کے باوجود بھی  ہم فعلاً اللہ رب العزت کو اپنا رب اور آقا ماننے سے انکار کیے ہو ئے ہیں اس طرح ہم ایمان با للہ یعنی کہ عقیدہ تو حید کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں ۔
جبکہ ایمان با لآخرہ یعنی کہ عقیدہ آخرت کے متعلق بھی ہما را رویہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کچھ مسئلہ ہی نہیں ۔

اللہ رب العزت کو غفور و رحیم سمجھ کر غلطیوں پر غلطیاں کئے جاتے ہیں  اور پھر ڈھٹائی کا عالم یہ کہ ہما را نفس اس سر کشی کی زندگی کو نہ خیر باد کہنے پر آمادہ ہو تا ہے اور نہ ہی تو بہ استغفار پر ۔

یہ سب ہما رے ایمان کی کمزوری کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہما را عبا دت میں دل لگتا ہے اور نہ ہی ہما رے سامنے امر با لمعروف ونہی عن المنکر کی کچھ حیثیت ہے یہی وجہ ہے کہ ہما را دل نا فرمانیوں میں خوش رہتا ہے کیونکہ ہم عملاً ایمان با للہ اور ایمان با لآخرہ سے انکار ہو چکے ہیں ۔

اگر ہمیں اللہ رب العزت کا حقیقی ڈر ہو تو ایسا کون سا شخص ہے جو پھر بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے ایسا کو ن سا شخص ہے کہ جسے یہ یقین ہو کہ قیامت کے دن میرے کا نوں میں پگھلا ہوا تانبا اور سیسہ ڈالا جائے گا لیکن پھر بھی وہ گا نے اور موسیقی سُنے ۔

اگر ہمیں اس بات پر یقین ہو کہ زبان کا تیڑھا پن انسان کو اوندھے منہ جہنم میں گرا ئے جا نے کا با عث ہو گا پھر بھی ہم جھوٹ بھی بو لیں اور زبان سے غیبت اور چغلی بھی کریں اور اسے کو ئی گناہ ہی نہ سمجھیں ۔ اگر ہمیں اس با ت کا یقین ہو کہ
جو شخص اس طرح مرگیا کہ نہ کبھی جہاد کیا ، نہ اس کے بارے میں کبھی دل سے خواہش کی تو وہ منافقت کے ایک شعبہ پر مرا (صحیح مسلم) اور منا فق جہنم  میں جائیگا لیکن پھر بھی ہم میدان میں نہ نکلیں اور نہ ہی جہادی تر بیت حاصل کریں ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمیں اس بات کا یقین ہو کہ ‘‘نماز میں سستی کر نے والوں کے لئے جہنم کی وادی ویل ہے ’’ اور بھر بھی نماز ادا نہ کریں ۔

یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ ہمیں اس بات کا یقین ہو کہ ‘‘ہر نفس نے موت کا ذایقہ چکھنا ہے ’’ لیکن پھر بھی ہم اس دنیا میں لمبی زندگی گزارنے کے ارادے کر تے پھریں۔
بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمیں اللہ رب العزت کے انعام و اکرام یعنی بہترین جنت پر یقین ہو لیکن پھر بھی دنیا اور دنیا کی چیزوں کی محبت پر اسے تر جیح دیں جیسا کہ
لو گوں کے لئے نفسانی خواہشوں کی محبت مزین کی گئی ہے جو عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہو ئے خزانے نشان لگا ئے ہو ئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی میں یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ ہی ہے جس کے پاس اچھا ٹھکا نا ہے (ال عمران 14)

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اللہ رب العزت کی عظمت و شان اور صفات مبارکہ کو حقیقتاً پہنچان لیں تو ہما را دل ہر طرح کی برائی سے بچتے ہو ئے دوسروں کے خلاف بغض ، کینہ اور حسد کو بھی دور کر دیگا عقیدہ آخرت پر یقین ہی انسان کو برائیوں سے بچا کر نیکی کی کٹھن راہوں پر صبرو ہمت ڈالتا ہے ۔

الغرض مسلم معاشرے میں گنا ہوں کے بڑھتے  رحجان کی اصل وجہ ایمان باللہ اور ایمان با لآخرہ میں کمزوری ہے اور ساتھ دل کو تسلی دینے کے لئے  یہ سبز باغ ہے کہ بس اللہ تعالیٰ معاف کر نے والا ہے  ۔
Source: alifseye.com

No comments:

Post a Comment

Popular Posts